چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

مضامین
از:.۔پروفیسر مشتاق احمد یس ملا،ہبلی۔9902672038
 حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملہ دراصل عرب دنیا کے ہر دروازے پر بجنے والی وہ دستک ہے جو صرف قطر تک محدود نہیں، بلکہ پورے عالمِ عرب کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی صدا ہے۔ یہ حملہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ دشمن کی سازشیں کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ہوتیں بلکہ وہ پوری امت کو اپنے گھیرے میں لینے کی حکمت عملی رکھتے ہیں۔ آج اگر عرب ممالک کے حکمران  بصیرت و دور اندیشی سے کام نہ لیا، تو وہ دن دور نہیں جب ایک ایک کر کے سب ممالک اسی آگ کی لپیٹ میں آئیں گے جس کی شعلگی آج  فلسطین کے دامن کو جلا رہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کبھی انہوں نے اتحاد و اتفاق کو مضبوطی سے تھاما، تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ اندلس سے لے کر بغداد تک، اور قسطنطنیہ سے لے کر دہلی تک، اسلامی تہذیب کی بنیاد اسی اتحاد پر قائم تھی جس نے علم و فن، سیاست و معیشت اور عدل و انصاف کو ایک نئی پہچان بخشی۔ لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ امت کے حصے بخرے ہو چکے ہیں، اور عرب دنیا جس کے پاس تیل، گیس، سمندری راستے اور انسانی سرمایہ جیسی نعمتیں وافر مقدار میں موجود ہیں، وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ فلسطین پر صیہونی ظلم و بربریت جاری ہے، مگر بیشتر عرب حکمران اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات استوار کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہ سوال بار بار ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر فلسطین کی چیخ و پکار عرب دنیا کو کیوں نہیں جھنجھوڑ پاتی؟ وہ قبلہ اول جس کی آزادی پر صدیوں تک جانیں قربان کی گئیں، آج اس کے محافظ خود اپنی کرسی اور تخت کے اسیر ہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاست اپنے تقاضے رکھتی ہے، مگر کیا اقتدار کے تقاضے کبھی ایمان کے تقاضوں پر غالب آ سکتے ہیں؟ فلسطینی بچے جب ملبوں کے درمیان لاشوں پر رو رہے ہوتے ہیں تو ان کی سسکیاں صرف اسرائیل کے خلاف نہیں ہوتیں بلکہ وہ دراصل ان عرب حکمرانوں کی بے حسی پر بھی نوحہ گری کرتی ہیں جو خاموش تماشائی بنے ہیں۔اسرائیل کا قطر پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر آج عرب حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ قطر کا معاملہ ہے اور کل ان کے دروازے محفوظ رہیں گے تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے۔ بقول شاعر
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
عرب ممالک کے باہمی اختلافات دشمنوں کے لیے کھلا میدان فراہم کر چکے ہیں۔ کوئی ملک ایران کے خلاف محاذ بنا رہا ہے، کوئی ترکی کی بڑھتی ہوئی حیثیت سے خائف ہے، کوئی اپنے ہمسائے کے خلاف سازشوں میں الجھا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی طاقت بکھر کر کمزور دھاگوں میں پرو دی گئی ہے۔ دشمن کی حکمت عملی ہمیشہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی رہی ہے، اور افسوس یہ ہے کہ آج کے عرب حکمران خود اپنے قدموں سے دشمن کی چال میں پھنس رہے ہیں۔ہم اگر ماضی کے صفحات پلٹیں تو یاد آتا ہے کہ فلسطین کی زمین پر جب پہلی بار صیہونی ریاست کے قیام کی سازش کی گئی تھی، تب بھی عرب دنیا اگر متحد ہو جاتی اور پوری شدت کے ساتھ مزاحمت کرتی تو تاریخ کا دھارا کچھ اور ہوتا۔ مگر اس وقت بھی باہمی انتشار اور خود غرضی نے دشمن کو کامیابی دی۔ آج بھی وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ قطر پر حملہ گویا ایک اشارہ ہے کہ کل کو کوئی اور عرب ملک بھی اسی طرح نشانہ بن سکتا ہے۔ مگر کیا عرب حکمران یہ حقیقت سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ سچ ہے کہ عرب دنیا کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ اگر یہ ممالک ایک معاشی اور عسکری اتحاد قائم کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ مگر افسوس کہ ان وسائل کو اپنی انا، کرسی اور اقتدار کی جنگوں میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ ان کی افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کے بجائے کبھی داخلی بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف رہتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولتی ہیں۔ ایسے میں دشمن کو اور کیا چاہیے؟ وہ تو ایک کے بعد ایک وار کرتا رہے گا اور یہ سب اپنی اپنی سلطنت کے خول میں دبکے خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔قرآن مجید بار بار مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتا ہے۔ ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا” کی صدا آج بھی اسی طرح گونج رہی ہے جیسے چودہ سو سال پہلے گونجی تھی۔ مگر عرب حکمرانوں نے اس آیت کو محض تقریروں اور بیانات تک محدود کر دیا ہے۔ عملی میدان میں وہ اسی تفرقہ بازی کے شکار ہیں جس نے اندلس کو کھویا، جس نے بغداد کو جلایا اور جس نے خلافتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کر دیا۔ کیا تاریخ کے یہ زخم ابھی بھرے نہیں کہ ہم پھر وہی غلطی دہرا رہے ہیں؟ فلسطین آج بھی مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ اس کے معصوم بچے، اس کی مظلوم عورتیں، اس کے بے گھر بوڑھے آج بھی عرب دنیا کی غیرت کے منتظر ہیں۔ مگر وہ غیرت کب جاگے گی؟ کیا قطر پر حملہ بھی کافی نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام عرب ممالک ایک صف میں کھڑے ہو جائیں؟ اگر آج وہ بیدار نہ ہوئے تو کل کو تاریخ انہیں صرف غافل اور بزدل حکمرانوں کے طور پر یاد کرے گی، جو اپنی دولت کے محلوں میں مست رہے اور اپنی رعایا کو دشمن کے حوالے کر دیا۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیداری کا لمحہ جب ہاتھ سے نکل جائے تو پھر واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا۔ امت ِ مسلمہ کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ یا تو وہ خوابِ غفلت سے جاگ کر اتحاد کے قلعے میں جمع ہو جائیں، یا پھر ایک ایک کر کے تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوتے چلے جائیں۔ آج بھی وقت ہے کہ عرب دنیا قطر کے خلاف ہونے والے حملے کو محض قطر کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے اپنی مشترکہ ذمہ داری سمجھے۔ آج بھی وقت ہے کہ فلسطین کے ساتھ بے تعلقی کی پالیسی ترک کر کے پوری قوت کے ساتھ اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ یہ درست ہے کہ دشمن کی طاقت بڑی ہے، اس کے پاس وسائل اور ہتھیار زیادہ ہیں، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایمان کی قوت جب اتحاد کے ساتھ جڑ جائے تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اس کے سامنے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ بدر و حنین کے معرکے، صلاح الدین ایوبی کی فتوحات اور سلطنتِ عثمانیہ کی عظمت ہمیں یہی درس دیتی ہے۔ لیکن اگر ایمان کمزور ہو اور اتحاد ٹوٹ جائے تو پھر انجام اندلس اور بغداد کی طرح ہوتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس راہ پر کھڑی ہے۔ کیا وہ اپنے وسائل کو دشمن کے مقابلے کے لیے بروئے کار لائے گی یا پھر آپس کی دشمنی اور اقتدار کی کشمکش میں برباد کرے گی؟ کیا وہ فلسطین کے زخموں پر مرہم رکھے گی یا پھر انہیں مزید گہرا کرنے میں اسرائیل کا ساتھ دے گی؟ کیا وہ قطر پر حملے کو اپنے خلاف اعلانِ جنگ سمجھے گی یا پھر اسے ایک معمولی واقعہ سمجھ کر خاموشی اختیار کرے گی؟ یہ تمام سوالات اُمت مسلمہ کے ضمیر پر دستک دے رہے ہیں۔ اور وقت  چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ اگر اب بھی عرب حکمران ہوش مندی سے کام نہ لیا نیتو پھر آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ انھیں ان غافل حکمرانوں کی صف میں کھڑا دیکھیں گی جو اپنے وقت میں کچھ کر سکتے تھے مگر انہوں نے کچھ نہ کیا۔ وہ انہیں بزدل اور غفلت کی مثال کے طور پر یاد کریں گی۔
لہٰذا آج کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے چراغ کی روشنی کو صرف دولت یا طاقت سے نہیں بلکہ اتحاد، عدل،علم اور ایمان کی پناہ میں قائم کرے۔ورنہ تاریخ گواہ ہے’’ چراغ سب کے بجھیں گے،ہوا کسی کی نہیں‘‘کہ مصداق آندھی سب چراغوں کو بجھا دیتی ہے۔ اگر ایک ملک پر حملہ ہوا ہے تو کل دوسرا ملک بھی نشانے پر ہوگا۔ اگر فلسطین تنہا چھوڑ دیا گیا ہے تو کل کوئی اور عرب ریاست تنہا ہو گی۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ بیداری کی صدا پر لبیک کہا جائے اور ایک ہو کر طاقتور دشمن کا مقابلہ کیا جائے جو امن و سلامتی کا بھی دشمن ہے۔ یہی ہماری بقا ہے، یہی ہماری عزت ہے، اور یہی تاریخ میں سرخرو ہونے کا واحد راستہ ہے۔ نیز عالمی حالات ہمارے لیے  انتباہ بھی  ہیں کہ اگر ہم نے باہمی اتحاد قائم نہ کیا، مسلکی اختلافات کی بھول بھلیوں میں الجھے رہے اور اختلاف کو حکمت و تدبیر سے ہم آہنگ نہ کیا اور اختلاف میں اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو یقیناً فسطائی طاقتوں کی سازشوں کا شکارہو کر ہم بھی اپنی شناخت، تہذیب اور وقار سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔