ادبی افق کا ماہ ِمنور اور تہذیب کا پیکر:پروفیسر سید سجاد حسین

مضامین
از:۔ڈاکٹر نفیس فاطمہ اے ایچ،لکچرر، جامعہ کوئمپو مطالعہ و تحقیق، سہیادری کالج کیمپس، شیموگہ
ادب و تحقیق کی دنیا میں استاد اور محقق کی شخصیت ہمیشہ سے مرکز و محور کی حیثیت رہی ہے۔ استاد محض نصاب کی تدریس تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے دل و دماغ کو جِلا بخشتا ہے، ان کے اندر فکر کی روشنی اور تحقیق کی جستجو کو بیدار کرتا ہے۔ ایک مخلص استاد کی رہنمائی نسلوں کی ذہنی و علمی ساخت کو سنوار دیتی ہے اور اس کی علمی میراث وقت گزرنے کے ساتھ مزید تابناک اور قیمتی بنتی جاتی ہے۔
اردو ادب کی تاریخ ایسے جلیل القدر اساتذہ سے مزین ہے جنہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں اور تنقیدی بصیرت کے ذریعے ادب کے افق پر نئی روشنی کے چراغ روشن کیے ہیں۔ انہی درخشاں ہستیوں میں پروفیسر سید سجاد حسین کا نام نہایت نمایاں اور معتبر ہے۔ ان کی حیات ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو نہ صرف اپنے معاصرین کو راہ دکھاتا رہا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی بصیرت و دانش کی روشنی بانٹتا رہے گا۔
پروفیسر سید سجاد حسین ان محققین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اردو تحقیق کو علمی استواری اور فکری گہرائی عطا کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو تدریس، تحقیق، تنقید اور طلبہ کی تربیت کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ علم کو صرف پیشہ نہیں بلکہ مقصدِ حیات سمجھتے ہیں۔ ان کی تصانیف اور مضامین اس حقیقت کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں کہ وہ اصول پسندی، علمی دیانت اور تحقیق کی باریکیوں کو ہمیشہ اولیت دیتے ہیں۔
جیسا کہ شمس الرحمٰن فاروقی  نےبجا طور پر کہا ہے’’تحقیق و تنقید کی اصل شرط یہی ہے کہ محقق اپنے ذاتی میلانات کو پسِ پشت ڈال کر حقیقت کی جستجو کرے۔پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت اور تحریروں میں یہی وصف پوری آب و تاب کے ساتھ جھلکتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آج کی نئی نسل کے محققین اور ادباء نہ صرف انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اپنی علمی زندگی کے لیے انہیں ایک رہنما اور مشعلِ راہ بھی مانتے ہیں۔
پروفیسر سید سجاد حسین کو پہلی نظر میں دیکھنے والا ان کے چہرے کی سنجیدگی اور وقار سے بے ساختہ متاثر ہوتا ہے۔ درمیانہ قد، متناسب جسم اور متوازن خدوخال اُن کے منظم اور شائستہ طرزِ زندگی کے گواہ ہیں۔ ان کی نشست و برخاست میں ایسا سکون اور ٹھہراؤ جھلکتا ہے جو کسی صاحبِ علم و وقار شخصیت کی پہچان ہوتا ہے۔ان کا چہرہ کشادہ اور روشن ہے، جس پر گندمی مائل رنگت اور وقت کے ہلکے نشانات ایک عجیب سی وجاہت اور وقار کو جنم دیتے ہیں۔ بلند اور کشادہ پیشانی گویا علم و بصیرت کی علامت دکھائی دیتی ہے۔ باریک مگر پُراثر عینک کے پیچھے ان کی گہری اور پُرتاثیر آنکھیں جھلملاتی ہیں۔ یہ آنکھیں مسلسل مطالعہ، غوروفکر اور علمی جستجو کا آئینہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں کبھی محبت و شفقت کی کرنیں جھلکتی ہیں اور کبھی تنقیدی بصیرت کی تیز روشنی۔ان کی گفتگو نرم، سنجیدہ اور نپی تلی ہوتی ہے۔ وہ کبھی آواز بلند نہیں کرتے، ہر لفظ سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر زبان سے ادا کرتے ہیں، جیسے لفظ نہیں بلکہگویاموتی پرونے جا رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں دلوں میں اتر جاتی ہیں۔ ہونٹوں پر ہمہ وقت رہنے والی ہلکی مگر پُراثر مسکراہٹ ان کی طبیعت کی نرمی اور محبت کا پتہ دیتی ہے۔
لباس و زیبائش میں وہ سادگی کے ساتھ نفاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثر سوٹ، سفاری یا پینٹ شرٹ میں نظر آتے ہیں مگر ان کے پہناوے کی تراش خراش اور ترتیب ان کی شخصیت میں مزید وقار پیدا کرتی ہے۔ کبھی کبھی مشرقی روایت کو نبھاتے ہوئے وہ ٹوپی بھی پہنتے ہیں جو ان کے تہذیبی ذوق اور روایت پسندی کی علامت ہے۔یوں پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت ظاہری وجاہت اور باطنی وقار کا حسین امتزاج ہے، جسے دیکھنے والا نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ ایک دیرپا تاثر اپنے دل میں محفوظ کر لیتا ہے ۔
پروفیسر سید سجاد حسین کی چال میں ایسا وقار اور ٹھہراؤ ہے کہ گویا ہر قدم اپنی معنویت کے ساتھ رکھا جا رہا ہو۔ نہ جلدبازی کی بے صبری ہے، نہ کاہلی کا بوجھ، بلکہ ایک ایسا اعتدال آمیز تسلسل جو ان کی باطنی سکونت اور پُراعتماد شخصیت کی کہانی سناتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کے قدم بھی علم کی ناپ تول اور شخصیت کی متانت کے پابند ہیں۔ان کی موجودگی میں ایک انوکھا سکوت جنم لیتا ہے، ایسا کشش انگیز سکوت جو دلوں پر احترام کی ایک غیر مرئی چادر تان دیتا ہے۔ کوئی ان کے قریب ہو تو بے اختیار ان کی عزت کرنے لگتا ہےاور جب وہ کسی محفل میں داخل ہوتے ہیں تو کمال یہ ہے کہ شور و ہنگامہ خود بخود دب جاتا ہے اور فضا میں ایک سنجیدہ علمی اور اخلاقی آہنگ پھیل جاتا ہے۔
شاگرد ہوں یا ہم عصر، سب ان کے انداز و اطوار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین کا سراپا دراصل ایک ایسے استاد کا آئینہ دار ہے جو اپنی علمی عظمت، گفتار کی شائستگی، ظاہری وقار اور باطنی سکون کے امتزاج سے دوسروں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔ وہ علم اور اخلاق کے حسین سنگم کی جیتی جاگتی تصویر ہیں، ایک ایسا پیکر جنہیں دیکھ کر استاد کی عظمت اور انسان کی خوبی یکجا ہو کر جلوہ گر ہوتی ہے۔
پروفیسر سید سجاد حسین ایک ایسے خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جہاں علم و تہذیب کی شمع ہمیشہ فروزاں رہی ہے۔ ان کا تعلق اس سید گھرانے سے ہے جس کی بنیادوں میں دین داری، علم پروری اور روایت پسندی کے نقوش گہرے ہیں۔ یہی پس منظر ان کی شخصیت کی فکری عمارت کی اولین اینٹ ثابت ہوا۔ خاندانی ماحول کی سادگی اور شرافت، دیانت اور علم دوستی نے ان کے اندر وہ اوصاف پیدا کیے جو آگے چل کر ان کی شخصیت کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔
بچپن ہی سے ان کے چہرے پر ایک سنجیدگی جھلکتی تھی اور آنکھوں میں جستجو کی چمک نمایاں رہتی تھی۔ جب ان کے ہم عمر بچے کھیل کے میدانوں میں خوشیاں سمیٹتے تھے، وہ کتابوں کے اوراق میں زندگی کی روشنی ڈھونڈتے۔ علمی مجالس میں خاموشی سے بیٹھ کر بزرگوں کی باتوں کو گہری دلچسپی سے سنتے اور پھر انہیں ذہن و دل میں محفوظ کر لیتے۔ گویا خاندانی تربیت نے ان کے ذہن کی زمین کو اتنا زرخیز کر دیا تھا کہ علم کے بیج وہاں آسانی سے پھوٹتے اور مضبوط جڑیں پکڑتے۔ابتدائی تعلیم مقامی درسگاہوں میں حاصل کی، جہاں اردو، فارسی اور عربی کے مضامین ان کی خاص دلچسپی کا مرکز بنے۔ گھر کے دینی و اخلاقی ماحول نے ان کی شخصیت میں مشرقی روایات کا وقار بھی سمویا اور جدید تعلیم و تحقیق کے در کھولنے کی جستجو بھی پیدا کی۔اساتذہ ان کی ذہانت، محنت اور غیرمعمولی ذوقِ مطالعہ سے بے حد متاثر رہتے۔ کم سنی ہی میں انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ مطالعے کا جو شوق ان کے بچپن میں پروان چڑھا، وہی آگے چل کر ان کی علمی شناخت کی بنیاد بنا۔
یوں پروفیسرسید سجاد حسین کی ابتدائی زندگی علم، تہذیب اور اخلاق کی ایسی خوشبو میں بسی تھی جس نے ان کے ذہن و دل کو معطر کیا۔ ان کی شخصیت کی اساس میں جہاں روایت کا حسن جھلکتا ہے، وہیں جدید فکر و تحقیق کی روشنی بھی جگمگاتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی ورثہ آگے چل کر ان کی علمی مسافت اور تدریسی خدمات میں ایک درخشاں حوالہ بنا۔
پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو ان کا علمی و تعلیمی سفر ہے۔ وہ بچپن ہی سے علم کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتے رہے اور اسی کو انہوں اپنی پہچان بنایا۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ جستجو کی چمک رہی اور ذہن میں محنت و لگن کا چراغ روشن رہا، جو بالآخر انہیں اعلیٰ مدارج تک لے گیا۔تعلیمی سفر کا پہلا بڑا سنگِ میل 1976ء میں سامنے آیا، جب انہوں نے ایم۔ اے اردو میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ کامیابی محض ایک ڈگری نہیں بلکہ ان کے ذوق، لگن اور غیر معمولی صلاحیت کی پہلی بڑی سند تھی۔ اس لمحے نے گویا اعلان کر دیا کہ یہ نوجوان آنے والے دنوں میں علمی دنیا میں اپنی انفرادیت کا نقش ضرور چھوڑے گا۔
مطالعے اور تحقیق کی تشنگی انہیں مسلسل آگے بڑھاتی رہی۔ 1979ء میں جب انہوں نے’’قاضی بدرالدولہحیات و کارنامے‘‘کے عنوان سے ایم فل مکمل کیا تو ان کی علمی جستجو مزید پختہ ہوگئی۔کلاسیکی ادب کے باریک پہلو، تنقید کے اصول اور تحقیق کی نزاکتیں اب ان کے لیے اجنبی نہ رہیں۔ وہ ہر متن کو صرف پڑھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے باطن میں اتر کر اس کی تہہ در تہہ معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اس دور میں انہوں نے علمی دیانت داری کو اپنی عادت اور تحقیق کی باریکیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔
پروفیسر سید سجاد حسین کا اصل وقار 1982ء میں مزید نکھرا، جب انہوں نے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا تحقیقی مقالہ "اردو ناولوں میں ہندوستانی سماج” محض ایک رسمی مرحلہ نہ تھا بلکہ اردو تحقیق کی روایت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس موضوع پر ان کی گرفت، مطالعے کی وسعت اور فکر کی گہرائی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صرف نصابی تقاضے پورے کرنے والے محقق نہیں بلکہ اپنی بصیرت سے تحقیق کو ایک نیا رنگ دینے والے عالم ہیں۔ یوں ان کا تعلیمی سفر ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو ابتدا سے مسلسل روشن رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی اور بھی پھیلتی گئی۔ یہ روشنی نہ صرف ان کی اپنی شخصیت کو منور کرتی رہی بلکہ دوسروں کے لیے بھی رہنمائی کا مینار بنتی گئی۔
پرورفیسرسید سجاد حسین کی علمی شخصیت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی تحقیقی سنجیدگی اور تنقیدی بصیرت ہے۔ وہ محض رسمی تحقیق کے قائل نہیں تھے بلکہ سچائی اور دیانت داری کو ہمیشہ اوّلین ترجیح دیتے رہے۔ ان کے نزدیک تحقیق ایک مقدس امانت تھی جسے صرف کتابی حوالوں یا رسمی تکمیل کے لیے انجام دینا کافی نہ تھا، بلکہ اس میں اخلاصِ نیت اور اصولی رویہ بھی ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں محض علمی باریکیاں ہی نہیں بلکہ ایک متوازن اور اصولی فکر بھی جلوہ گر نظر آتی ہے۔کلاسیکی ادب کی تہذیبی خوشبو ہو یا جدید رجحانات کی تازگی—پروفیسر سید سجاد حسین نے دونوں کو اپنے مطالعے اور تحریروں میں اس طرح ہم آہنگ کیا کہ ایک طرف روایت کا تقدس قائم رہا اور دوسری طرف نئے زاویوں کی جستجو بھی کم نہ ہوئی۔ ان کا قلم تحقیق کی کسوٹی پر بھی پرکھا گیا اور تنقید کے میدان میں بھی معتبر ٹھہرا۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا علمی و تعلیمی سفر محض ڈگریوں اور مناصب کی کہانی نہیں بلکہ لگن، محنت اور سچائی کے امتزاج سے بنی ہوئی ایک روشن داستان ہے۔ یہی داستان انہیں اردو ادب کی علمی دنیا میں ایک معتبر اور قابلِ رشک مقام عطا کرتی ہے۔
پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت کو اگر کسی ایک نمایاں پہلو میں سمونا ہو تو وہ بلاشبہ ان کی تدریسی خدمات ہیں، جن کی خوشبو آج بھی ان کے شاگردوں کے دل و دماغ کو معطر کیے ہوئے ہے۔ ان کے نزدیک تدریس محض روزگار یا پیشہ ورانہ مصروفیت کا نام نہیں، بلکہ ایک مقدس ذمہ داری اور امانت ہے، جسے انہوں نے پوری عمر نہایت سنجیدگی، خلوص اور قلبی وابستگی کے ساتھ نبھایا۔ ان کا ماننا ہے کہ استاد کا اصل کردار محض نصاب دہرانے یا کتابی معلومات منتقل کرنے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ استاد دراصل رہنما، مربی، مصلح اور کردار کا معمار ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ ایک ایسی روشنی فراہم کرتے رہے جو انہیں صرف علمی سمت ہی نہیں دیتی بلکہ عملی زندگی میں بھی حوصلہ، مقام اور وقار عطا کرتی ہے۔ ان کی درسگاہ محض تدریسی سرگرمیوں کی آماجگاہ نہ تھی بلکہ ایک ایسی تربیت گاہ تھی جہاں علم، اخلاق اور کردار ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے شاگرد ان کی باتوں، رویّوں اور نصائح کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کا بڑا حصہ ان کی شخصیت کے زیرِ سایہ حاصل کردہ رہنمائی کو قرار دیتے ہیں۔ اس طرح پروفیسر سید سجاد حسین نہ صرف ایک استاد کی حیثیت سے زندہ ہیں بلکہ ایک عہدساز شخصیت کے طور پر اپنی تدریسی خدمات کی بدولت ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
کلاس روم میں ان کی موجودگی ایک طرح کی روشنی کا سا سماں پیدا کرتی ہے۔ جب وہ بولتے تو الفاظ محض الفاظ نہیں رہتے ، بلکہ وضاحت، گہرائی اور ادبی حسن کے ساتھ طلبہ کے دلوں میں اترتے چلے جاتے۔ وہ سبق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ذہنوں کو جِلا بخشتے اور دلوں میں ادب کی محبت جگاتےہیں۔ نصاب ان کے لیے بس ایک وسیلہ ہے، اصل مقصد طلبہ کو تحقیق کی راہوں کی طرف مائل کرنا اور انہیں مطالعے کی لذت سے روشناس کرانا ہے۔شاگرد ان کے سامنے صرف سننے والے نہیں ہوتے بلکہ شریکِ گفتگو بھی بن جاتے ہیں اور وہ گفتگو اکثر نصاب سے آگے بڑھ کر زندگی، سماج اور ادب کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد نہ صرف تعلیم یافتہ بنے بلکہ ادب اور تحقیق کے شائق بھی ہوئے۔
یوں پروفیسر سید سجاد حسین کا تدریسی کردار ایک ایسے استاد کا خاکہ پیش کرتا ہے جو اپنی ذات میں مشفق بھی ہے، رہنما بھی اور اپنے علم سے نسلوں کی فکری پیاس بجھانے والا سرچشمہ بھی۔ سجاد صاحب کی شاگرد پروری ان کی شخصیت کا وہ روشن پہلو ہے جسے ان کے شاگرد آج بھی عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاگرد محض علم حاصل کرنے والے نہیں ہوتے بلکہ مستقبل کے معمار ہوتےہیں۔ وہ انہیں صرف کتابی رہنمائی نہیں دیتے ہیں بلکہ عملی زندگی کی دشواریوں کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ مطالعے کی عادت ڈالنا، سوچنے کے زاویے سکھانا اور لکھنے کی سلیقہ مندی سکھانا—یہ سب ان کے تدریسی اسلوب کے لازمی اجزاء ہیں۔ ان کی کلاس روم محض چار دیواری نہیں رہتی بلکہ ایک ایسی محفل بن جاتی ہے جہاں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ شوق اور جستجو کی فضا بھی سانس لیتی نظر آتی ہے۔
علمی اداروں میں ان کی خدمات کا تذکرہ آئے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں بھی گئے، وہاں کی فضا علمی اعتبار سے اور نکھر گئی۔ وہ محض درس دینے والے نہیں ہیں بلکہ اپنی موجودگی سے ادارے کے وقار کو بلند کرنے والےہیں۔ استاد کے ساتھ ساتھ وہ منتظم بھی ہیں اور رہنما بھی۔ ان کا کردار اس چراغ کی مانند ہے جو نہ صرف خود روشن رہتا ہے بلکہ اپنے گرد و پیش کو بھی اجالے میں ڈبو دیتا ہے۔یوں ان کی تدریسی زندگی اور ادارہ جاتی خدمات ایک ایسے استاد کا خاکہ پیش کرتی ہیں جو اپنے شاگردوں کے لیے مربی بھی ہیں، رہنما بھی اور جس کی موجودگی کسی بھی علمی ادارے کے لیے باعثِ فخر بھی۔
پروفیسر سید سجاد حسین تحقیق کو کبھی بھی رسمی کارروائی یا ڈگری حاصل کرنے کا محض ایک ذریعہ نہیں سمجھتےہیں۔ ان کے نزدیک تحقیق ایک زندہ عمل ہے، ایک ایسی جستجو جو ذہن کو وسعت اور دل کو اطمینان بخشتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے شاگردوں کو بار بار اس طرف متوجہ کرتے کہ تحقیق میں نقل یا محض حوالہ جات کا انبار نہیں، بلکہ اپنی سوچ اور اپنی کاوش کی جھلک ہونی چاہیے۔ کلاس روم اور لائبریری ان کے لیے ایک تربیت گاہ ہیں جہاں وہ عملی مثالوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو تحقیق کے اصل مقصد سے روشناس کراتے۔ ان کی نگرانی میں لکھے گئے کئی مقالے اور مضامین آج بھی اردو ادب کے صفحات پر ان کی رہنمائی کی مہر ثبت کیے ہوئے ہیں۔
جہاں تک استاد اور شاگرد کے تعلق کا سوال ہے، وہاں پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت ایک خوشبو کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ وہ رشتہ محض رسمی نہیں ہوتا—نہ استاد صرف تختۂ سیاہ تک محدود رہتا اور نہ شاگرد صرف نوٹ بک تک۔ یہ رشتہ باہمی احترام، شفقت اور اعتماد پر قائم ہے۔ شاگرد انہیں استاد سے بڑھ کر ایک مربی اور سرپرست کی صورت میں دیکھتےہیں۔ ان کے کمرۂ جماعت میں داخل ہوتے ہی شاگردوں کو یہ یقین ہوتا کہ وہ صرف نصاب نہیں بلکہ زندگی کی بھی کوئی نئی جہت سیکھ کر نکلیں گے۔یوں پروفیسر سید سجاد حسین کی تدریسی زندگی محض کامیاب استاد ہونے کی داستان نہیں بلکہ ایک ایسے مربی کا خاکہ ہے جس نے اپنی محنت، خلوص اور رہنمائی سے نسلوں کو سنوارا اور اردو ادب کے مستقبل میں اپنی روشنی شامل کی۔
پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت کو صرف ایک استاد یا محقق کی خانہ بندی میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی صلاحیتوں کا دائرہ تدریس اور تحقیق سے نکل کر انتظامی و ادبی خدمات تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں کہیں بھی انہیں ذمہ داری دی گئی، وہاں ان کی اصول پسندی، علم دوستی اور خدمتِ ادب نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔اداروں کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آتی تو گویا ایک خوش ذوق منتظم اور ایک سچے ادیب کا امتزاج عمل میں آ جاتا۔ ان کے فیصلوں میں ذاتی مفاد یا وقتی فائدے کی کوئی جھلک نہ ملتی، بلکہ وہ ہمیشہ اس بات کو ترجیح دیتے کہ ادارے کا وقار بلند ہو اور ادب کی خدمت کا سفر مزید آگے بڑھے۔ ان کی نگرانی میں منعقد ہونے والے علمی و ادبی پروگرام نہ صرف معیاری ہوتے بلکہ نئی نسل کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ بھی بنتے ہیں۔وہ جس ادارے سے وابستہ رہے، وہاں کی فضا میں ایک اعتدال، شفافیت اور علمی لگن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی موجودگی اداروں کے وقار میں اضافہ کرتی اور ان کی شخصیت گویا ایک ضمانت بن جاتی کہ یہاں علم اور ادب کے چراغ بجھنے نہیں پائیں گے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت صرف ایک کامیاب استاد یا محقق تک محدود نہیں بلکہ ایک مدبر منتظم اور خدمت گزار ادیب کا خاکہ بھی پیش کرتی ہے، جس نے اپنے اخلاص، بصیرت اور انتظامی صلاحیتوں سے کئی اداروں کو جِلا بخشی اور اردو ادب کے سفر کو نئی توانائی عطا کی ہیں۔
انتظامی و ادبی خدمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پروفیسر سید سجاد حسین کی شخصیت محض استاد یا محقق تک محدود نہیں رہی۔ جہاں بھی ان کے قدم پڑے، وہاں انہوں نے اپنی بے مثال تنظیمی صلاحیت، اصول پسندی، اور ادب دوستی کی خوشبو بکھیر دی۔ ان کی نگاہِ ناقدانہ نے نہ صرف مواد کی صحت و درستی کو یقینی بنایا بلکہ حوالہ جات کی باریک بینی اور تحقیقی معیار کی بلندی نے اردو تحقیق کے اس کارواں کو نئی سمت عطا کی۔ ان کی زیرِ ادارت شائع ہونے والی تحریریں اردو تحقیق کی دنیا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جو علمی جہات کی گہرائی اور وسعت کی عکاس ہیں۔ پروفیسر سید سجاد حسین کی ادارت محض ایک عمل نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک ہے جس نے تحقیق کے معیار کو بلند کر کے اردو ادب کے افق کو روشن کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علمی اثاثے آج بھی محققین اور طالبعلموں کے لیے رہنمائی کا مینار ہیں اور اردو تحقیق کی دنیا میں ان کا نام ہمیشہ احترام و تعظیم کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
ادبی انجمنوں اور علمی محفلوں میں بھی ڈاکٹر صاحب کی موجودگی مجلس کو ایک نیا وقار عطا کرتی ہے۔ وہ کبھی ہنگامہ خیزی کے نہیں، بلکہ متانت اور توازن کے آدمی ہیں۔ ان کی رائے ہمیشہ مدلل اور متوازن ہوتی، جسے سن کر اہلِ علم اطمینان کی سانس لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ مجلس میں روشنی کی مانند پھیلتے اور سامعین پر یہ تاثر چھوڑتے کہ علم اور تجربہ کس طرح سادگی کے ساتھ جھلک سکتا ہے۔
نصاب سازی اور تعلیمی پالیسی میں بھی ان کی رائے کو بنیادی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ وہ محض پرانے متون کی تجدید کے قائل نہ تھے بلکہ ان کا اصرار ہے کہ اردو نصاب میں زمانے کی نئی روح اور تحقیق کی تازہ ہوا شامل ہو۔ ان کے نزدیک نصاب کتابوں کا ڈھیر نہیں بلکہ فکر و شعور کے دروازے کھولنے کا ذریعہ ہے۔
تحقیقی اداروں اور جامعات میں جب بھی پروفیسر سید سجاد حسین کو مشیر یا ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے، تو طلبہ و محققین کے دل ان کی باتوں سے ایک نئی توانائی اور جذبہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ نہایت اصولی اور مدلل انداز میں، اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں رہنمائی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مشورے محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے کارگر رہنمائی بن جاتے ہیں۔ ان کی باتوں میں فکر کی گہرائی اور بصیرت کا حسین امتزاج ہوتا ہے جو ہر سامع کو فکرِ نو پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ان کی علمی گفتگو اک ایسی روشنی ہے جو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے اور تحقیق کے میدان میں ایک نیا جوش جگاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے مشوروں کو سونپے گئے علم و فہم کی مانند قیمتی سمجھا جاتا ہے جو طلبہ اور عالمانہ حلقوں میں بے حد قدر و منزلت رکھتا ہے۔ان کی یہ تمام انتظامی و ادبی خدمات مل کر ان کے علمی وجود کو اور زیادہ روشن بناتی ہیں۔ وہ نہ صرف ایک باکمال استاد اور محقق ہیں بلکہ ایک منظم منتظم اور صاحبِ نظر مدبر بھی ہیں۔ ان کی ذات نے اردو ادب کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو تقویت بخشی ہے اور ان کی خدمات ایک ایسی علمی میراث ہیں جو آنے والی نسلوں کو راہ دکھاتی رہیں گی۔
پروفیسرسید سجاد حسین کی شخصیت کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم نے سادگی کا ہاتھ تھام رکھا ہے اور وقار نے شرافت کی چادر اوڑھ لی ہے۔ وہ محض ایک استاد یا محقق نہیں بلکہ ایک مکمل انجمن ہیں۔ جہاں بھی ان کی موجودگی ہوتی ہے، وہ محفل کو سنجیدگی، شائستگی اور سکون سے بھر دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں گہرائی، کردار میں وقار اور انداز میں اخلاق کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔وہ اصولی اور مدلل انداز میں، اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں ایسی رہنمائی فراہم کرتے ہیں جو محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ ان کی علمی گفتگو ایسی روشنی ہے جو ہر سامع کو تحقیق اور علم کی نئی راہوں پر لے جاتی ہے۔ یہی سنجیدگی، علم دوستی اور حسنِ اخلاق ان کی شخصیت کو علم و ادب کے میدان میں ایک ممتاز مقام عطا کرتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ احترام و عقیدت سے یاد کیا جاتا رہے گا۔
اصول پسندی ان کی شخصیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر کوئی ان سے تحقیق میں ذرا سا سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیتا تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایسے دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں "سچائی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔” ان کے نزدیک محقق کا پہلا فرض سچ کو سامنے لانا ہے، خواہ اس سے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ کھڑی ہو جائیں۔
ان کا اپنے طلبہ سے تعلق محض استاد شاگرد کا نہ تھا۔ وہ شاگردوں کو کتابی سبق ہی نہیں پڑھاتے بلکہ زندگی جینے کے گر بھی سکھاتے ہیں۔ طلبہ کے مسائل سنتے تو ان کے لہجے میں شفقت کی وہ نمی ہوتی جس سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا۔ اسی لیے ان کے شاگرد انہیں استاد سے زیادہ ایک سرپرست اور مربی سمجھتےہیں۔شرافت اور متانت ان کے اندازِ گفتگو کے زیور ہیں۔ وہ سخت بات بھی اس نرمی سے کرتے کہ سننے والا خفا ہونے کے بجائے اپنی اصلاح پر راضی ہو جاتا۔ یوں لگتا جیسے دلیل اور اخلاق نے ان کی زبان پر ہمیشہ دستِ شفقت رکھا ہو۔
وقت کی پابندی ان کے معمولات میں اس درجہ داخل ہے کہ کلاس ہو یا اجلاس، وہ مقررہ وقت پر ہی نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ محض ایک عادت نہ تھا بلکہ شاگردوں کے لیے عملی درس بھی  کیونکہ کامیابی نظم و ضبط کے بغیر ممکن نہیں۔مطالعہ ان کے لیے محض مشغلہ نہیں بلکہ سانس کی طر ح ضروری ہے۔ نئی کتاب، تازہ تحقیق یا ادبی رجحانات پر ان کی نظر ہمیشہ بیدار رہتی۔ اسی لیے ان کی گفتگو اور تحریر میں تازگی اور وسعت کی خوشبو ملتی ہے۔
اپنی علمی عظمت اور کامیابیوں کے باوجود وہ سادہ اور منکسر المزاج رہے۔ شہرت سے دور، تعریف سے بے نیاز، وہ ہمیشہ اپنی ذات کو پسِ پردہ رکھتے ہیں۔ یہی انکساری ان کی شخصیت کو اور زیادہ جاذبِ نظر بنا دیتی ہے۔
پروفیسرسید سجاد حسین کی ذات ایک ایسا حسین امتزاج ہے جہاں علم کی گہرائی، اصول پسندی، اخلاق کی نرمی اور مزاج کی سادگی بخوبی یکجا ہیں۔ ان کے علم نے سادگی کا ہاتھ تھام رکھا ہے اور ان کے وقار نے شرافت کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ وہ محض استاد یا محقق نہیں، بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، جو جہاں بھی بیٹھتے ہیں، وہاں کی محفل کو سنجیدگی، شائستگی اور سکون کی فضا سے معمور کر دیتے ہیں۔
 تحقیقی اداروں اور جامعات میں جب بھی وہ مشیر یا ماہر تعلیم کے طور پر مدعو کیے جاتے ہیں، تو طلبہ و محققین ان کی باتوں سے نئی توانائی اور ولولے سے معمور ہو جاتے ہیں۔ وہ اصولی اور مدلل انداز میں، اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں رہنمائی کرتے ہیں، جس کی بدولت ان کے مشورے محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے کارگر رہنمائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک روشن چراغ کی مانند، وہ اپنے علم و عمل سے دوسروں کو راہِ نمو دکھاتے ہیں۔ وہ بیک وقت استاد ہیں، محقق ہیں، مدیر ہیں، رہنما ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک شفیق انسان ہیں۔
پروفیسرسید سجاد حسین کی شخصیت میں اخلاق، علمی وسعت اور انسانی لطافت اس قدر گہری اور نمایاں ہے کہ ہر سامع ان کی گفتار اور کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس طرح وہ اردو ادب اور تحقیق کے افق پر ایک ماہ منور کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے نہ صرف علمی خدمات انجام دیں بلکہ تہذیب و ثقافت کی روشنی بھی بکھیر دی۔ پروفیسر سید سجاد حسین کی زندگی ہمارے معاشرے کے لیے ایک چراغ راہ ہے جو علم، اخلاق اور خدمت کی روشن مثال قائم کرتی ہے۔