از:۔ڈاکٹر شبینہ طلعت
لکچرر شعبۂ اردو سہیادری آرٹس کالج۔ شیموگہ۔9141394397
لکچرر شعبۂ اردو سہیادری آرٹس کالج۔ شیموگہ۔9141394397
اپنی پسند کی چیزوں کو بلا اجازت اٹھا لینا اور اس کو اپنی ملکیت سمجھنا یا قراردینا عام زبان میں چوری کہلاتا ہے۔انسان سے چوری کا رشتہ بہت پرانا ہے یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسان اور چوری کا میل گویا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔چوری انسانی خمیر کا ایک لازمی جزو ہے ۔ چوری کرنے کی وجوہات بے کراں ہیں جس وجہ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے اسے مجبوری کہتے ہیں۔مجبوری کا لفظ بھی پیاز کی طرح پرت بر پرت چسپاں بھی ہے لذیذ بھی ہے اور وسیع بھی۔ بچے سے لیکر بزرگ تک ،جوان سے لیکر دیوان تک ،جاہل سے لیکر عالم تک اور غریب سے لیکر مالدار تک سب کے سب چور ہیں اور ہر ایک کی الگ الگ مجبوری ہے ۔غرض چوری مجبوری کا دوسرا نام ہے۔چوری کی دو قسمیں ہیں ایک شعوری چوری اور دوسری لاشعوری چوری۔شعوری چوری کی بنسبت لاشعوری چوری کا رواج ہمارے سماج میں بہت زیادہ ہے۔راہ چلتے کسی کو خط لکھنے کا خیال آجاتا ہے پوسٹ آفس پہنچتے ہیں ،مقابل سے قلم مانگ کر خط کی تحریر میں مصروف ہوجاتے ہیں ،خط طویل ہوتا جاتا ہے اور مالک ِقلم جناب کی محویتِ تحریر دیکھ کر ایک مسکراہٹ بکھیر تے ہوئے رخصت ہو جاتا ہے ۔تحریر کی محویت سے فارغ ہونے کی بعد محرر کو احساس تک نہیں رہتا کہ قلم کسی اور کا ہے ،لاشعوری کے عالم میں قلم کو اپنی جیب کی زینت بنالیتا ہے ۔بے شک یہ عمل لاشعوری ہے لیکن بالآخر چوری تو چوری ہی ٹہری، اس کو جائز قرار دینے کی لاکھ کوشش کی جائے غلط ہے ۔ یہی کیفیت مسجد سے چرائے ہو ئے جوتوں کی بھی ہوتی ہے۔غرض اس حالت میں چوری کی چوری بھی ہوئی اور الزام سے بری بھی رہے۔لاشعوری چوریوں کی فہرست تیار کرنے لگ جائیں تو دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں کیوں کہ تقریباً ہر فرد کے نامۂ اعمال اس جرم کی مثالیں موجود ہیں۔
شعوری چوری کا سلسلہ اسوقت سے ملتا ہے جب سے انسان کی تاریخ کا وجود ہوا،وجہ یہ ہے کہ جس دن انسان عالم وجود میں آیااسی دن سے اس کی ضرورتوں کا سلسلہ دراز ہونے لگا اور وسائل کی کمی نے مال مفت پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔ضرورت انسان کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو اس کے بس میں ہے ۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم زمانے میں کپڑے کی قلت تھی اور لاشوں کو پندرہ یا بیس گز کپڑے میں لپیٹ کر سپردخاک کیا جاتا تھا جب کہ لاش کواتنے کپڑے کی نہ اسوقت ضرورت تھی اور نہ ہی آج ہے۔ کپڑے کے اصراف خرچ کا احساس سب سے پہلے کپڑے کے ضرورتمند حضرات کو ہوا اور انہوں نے کپڑے کے جائز استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری سمجھا کہ اس کپڑے کے استعمال کا موقع مردے کے بجائے زندہ انسانوں کو مہیا کیا جائے ۔اس فلسفیانہ نظریے کے تحت کچھ دانشمند اور باہمت لوگوں نے پہل کی اور مردے کے متعلقین کے قبرستان سے رخصت ہوتے ہی مردے کو پیدائشی لباس پہنا کر کپڑے اتار لئے ۔اس عمل کے حامل اشخاس کو اہل قلم نے کفن چور کے نام سے یاد کیا ہے۔شعوری چوری کی اس سے بہتر مثال شاید ہی کہیں ملے۔
اس طرز کی چوریوں میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اور چوریوں کے نئے نئے نام بھی منظر عام پر آنے لگے جیسے ڈاکہ زنی،پاکٹ مارنا یا جیب کاٹنا،ہاتھ صاف کرنا، لوٹ مار کرنا وغیرہ وغیرہ ۔مذکورہ بالا تمام طرز کی چوریوں میں اشیاء کی چوری ہوتی تھی۔جب سے انسان صاحب ِقلم بن گیا اس دن سے پلان کے چوری،پراجیکٹ کی چوری،نوٹس کی چوری،کتابوں کے مواد کی چوری،مقالات کی چوری ،شعری و نثری تخلیقات کی چوری وغیرہ کاادبی و علمی دنیا میں روج ہوا تو اس طرز کی چوری کو ادیبانہ اور مہذب انداز کے مدنظر چوری نہیں بلکہ ’’سرقہ ‘‘کے نام دے یاد کیا جانے لگا۔غرض سرقہ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی قلم کی تاریخ ہے۔
اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آسمان ادب میں بھی کئی ایسے درخشاں ستارے اپنی ضوفشانی سے قارئیں کی آنکھوں کو چکاچوند کررہے ہیں جن کا مکمل دارو مدار سرقہ پر تھا اور ہے۔اردو میں سرقہ کا رواج شاعری سے ہوا۔ابتدائی دور میںجب کسی کاشعر کسی دوسرے شاعر کے شعر سے میل کھاتا تھا تو کہتے تھے کہ ’’خیال ٹکرا گیا ہے‘‘چھوٹی بحر کی غزلوں میں خیال کا ہی نہیں بلکہ تمام الفاظ کاٹکرانا بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن طویل بحروں میں اس کی گنجائش بہت کم ہے ۔ شاعری کی تاریخ میں کئی مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں مکمل غزلیں ، شعر یامصرعہ صاحب شعر کے کلام سے اٹھالئے گئے ہوں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ کبھی کبھی کسی استاد شاعر کا کلام سرقہ کرکے اس مشاعرہ میں سنایا جاتا ہے جہاں خود خالق شعر بھی موجود ہوتا ہے۔مترنم متشاعروں کی مقبولیت باکمال تحت میں پڑھنے والوں کی بنسبت زیادہ ہوتی ہے اور انہیں مشاعروں میں شرکت کے مواقع بھی توقع سے زیادہ نصیب ہوتے ہیں ۔ان کی بھی آرزو ہوتی ہے کہ ہر مشاعرہ میں نیا کلام سنایا جائے ،اس آرزو کی تکمیل میں قدیم رسائل وجرائدبہت مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ایسے جرأت مند اور باکمال حضرات اس بات سے نا واقف ہوتے ہیں کہ اساتذہ زندگی میںصرف ایک مرتبہ پڑھا ہوا یا سناہوا کلام بھی تمام عمر اپنے حافظے میں محفوظ رکھتے ہیں ،مگر متشاعروں اور سارقین کا دل رکھنے کی خاطر جان جان کر خاموش رہتے ہیں۔ اگر شائع شدہ مالِ مسروقہ نظر سے گزرے تو اساتذہ ایک سرسری نظر میں پہچان جاتے ہیں کہ یہ مالِ مسروقہ ہے۔
غزلوں کا سرقہ کرنے والے حضرات سے ایک نمایاں غلطی ہوتی ہے جس کا انہیں اندازہ نہیں ہوتا ،اگر اس بات کا انہیں اندازہ ہوتا تو انہیں سرقہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔تصورکر لیجئے کہ ایک استاد شاعر کا تخلص چار حرفی ہے ،جیسے غالب،مجاز یا فراز وغیرہ اگر سارق کا تخلص پانچ حرفی ہو جیسے مجروح،عمران ،شیرازوغیرہ تو ایسے سارق کے پکڑے جانے میں بڑی آسانی ہو گی ۔وہ جیسے ہی مسروقہ غزل کے مقطع کو پیش کرے گا جو یقیناً خارج از بحر ہوگا تو ایک عام فہم سامع بھی سارق پر گرفت کر سکتا ہے ۔اکثر سارقین مسروقہ غزلوں کے مقطع میںمنکشف ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ مقطع میں چھیڑ چھاڑ کر لی جائے تو بس ہے تخلیق خود کی ہو جائے گی۔ایسے سارق شاعر یہ بھول جاتے ہیں کہ’’ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ سارق مشاعرہ میں مال مسروقہ پیش کرنے لگتا ہے اور غزل میں موجود کئی تراکیب یا دقیق الفاظ کی ادائیگی سے خود ناواقف ہوتا ہے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتا ہے اساتذہ کیلئےاتنی سی جھلک کافی ہوتی ہے ۔ غرض مال مسروقہ تحریر میں ہو یا ادائیگی میں بہر حال سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے مشاعروں میں سارقین آکر مال مسروقہ پیش کرتے ہیں مگر افسوس ،ایسے شعرا کو دعوت دے کے مشاعرو ں میں بلانے والے منتظمین خود بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہواکرتے ہیں کہ اصلی تخلیق کس نے سنائی اور مسروقہ مال کس نے پیش کیا ۔جدید دور میں استادی اور شاگردی کا رواج تقریباً ختم ہو گیا ہے ۔ ہر نومشق اپنے آپ کو مبداء فیاض تصور کرنے لگا ہے جس کی وجہ سے آسمانِ شاعری پر سارقین کی اکثریت محسوس کی جا رہی ہے۔
ابتدائی دور میں شاعری صرف تفنن طبع کی خاطر یا شوق کی خاطر کی جاتی تھی، جس کو ادب برائے ادب کہا جاتا ہے۔دن گزرتے گئے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی حالات میں تبدیلیاں رو نما ہوئیں ،رفتہ رفتہ ادب کا رشتہ زندگی سے استوار ہونے لگا۔اب شاعری بامقصد ہونے لگی ۔ اسی طرح اردو نثر میں بھی ادب برائے زندگی کا عنصر مقبول سے مقبول ترین صورت حال اختیار کرنے لگا۔بڑے بڑے اعزازات، انعامات اور کرسیوں کے حصول میں نثری تخلیقات کو اہمیت دی جانے لگی تو ادبی دنیا میں نثر نگاروں کی آؤبھگت ہونے لگی۔نثری ادب کی اس صورت حال نے مقبولیت پسند، شہرت پسند اور اقتدار پسند غیر ادبی شخصیات کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا جن کو راتوں رات ادیب یا ناقد بنانے میں سرقے نے جنم جنم کا رشتہ نبھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنے نثر نگار آسمان ادب سے نہیں بلکہ ادب کی زمین سے ابلنے لگے کہ دامن اردو نثر شائستہ و ناشائستہ ادب پاروں سے مالامال ہو گیا۔اس طرح گلستان ِاردو نثر میں گلوں کی ہی نہیں بلکہ کانٹوں کی بھی بہتات ہو گئی۔
شاعری میں سرقہ کی وجہ مشاعروں میں واہ واہی اور مقبولیت کی حد سے متجاوز نظر نہیں آتی لیکن نثر میں اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا دائرہ بہت وسیع ہے۔نثر میں سرقہ کی ایک مثال اتنی تیزی سے منظر عام پر آئی کہ سارق کو اگلے ہی ہفتے اپنا معافی نامہ اسی روزنامے کے ادبی ایڈیشن میں شائع کرانا پڑا جس میں موصوف کا مالِ مسروقہ(سفرنامہ) شائع ہوا تھا۔عموماً مقالے سرقہ کر لئے جاتے ہیں چاہے اس کی وجہ کچھ بھی ہو اس سے قطع نظر اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ مقالات کے سرقے سے کیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً ایک صاحب کو مقالہ تحریر کرنا تھا صاحب قلم نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا مقالہ نقل کرلیا جاتا ہے اور وہاں داخل کردیاجاتا ہے جہاں اسے داخل کر نا ہوتا ہے۔جس کا مقالہ لیا گیا ہے وہ زید نامی ایک مرد پر لکھاگیا مقالہ ہے ۔اگر سارق کا موضوع ایک عورت ہو تو حسب ذیل جملے دیکھنے کو ملیں گے جیسے ؛مقالے میںشخصیت پر بھی ایک عنوان آئے گا جس میں اس کا سراپا پیش کیا جائے گا جس پر مقالہ لکھاجا رہا ہے۔ اصلی مقالے میں زید کے لباس کا ذکر یوں ہوا ہے کہ’’ زید سفید پینٹ اور شرٹ زیب تن کیا کرتا تھا‘‘۔سارق کا جملہ اسطرح ہو سکتا ہے ’’رضیہ سرخ ساری زیب تن کیا کرتا تھا‘‘سارق کا مقصد اپنے مقالے میں صرف عنوانات اور ناموں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے تاکہ کسی اور کا مقالہ اپنے نام منسوب ہو جائے۔مکمل جملے کی تبدیلی پر سارق کی توجہ بالکل نہیں ہو گی جس کا یہ انجام ہوگا۔بسا اوقات یوں بھی ہو سکتا ہے کہ سارق کا عنوان کوئی افسانہ نگار ہو اور جس مقالے سے نقل کیا جارہا ہے وہ شاعر ہو۔ اس صورت میں عنوانات میں بھی گڑ بڑی ہو نے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہے ۔
شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا سرقہ قدرے آسان ہوا کرتا ہے ۔مضمون عموماً بیانیہ ہو تا ہے، اس میںصرف اتنا کرنا ہوتا ہے کہ مضمون میں موجود نام کو تبدیل کردیا جائے اور کتابوں کے نام دئے گئے ہوں تو ان کو بھی بدل دیا جائے ، بس کسی اور کا مضمون ہمارا ہو گیا۔ اس مقام پر سارق سے نمایاں طور پر یہ غلطیاں ہو جاتی ہیں جیسے اولین مضمون کا موضوع اگر شاعر ہے تو اس کے مضمون میں تمام مثالیں شاعری سے ماخوذ ہوں گی اور جس کے نام منسوب کیا جانے والاہے اگر وہ افسانہ نگار ہو تو تمام مثالیںغلط ثابت ہوں گی سارقین کو ان باریکیوں کا علم نہیں ہو گا کیوں کہ ان کی اڑان اتنی بلند نہیں ہوتی۔