از:۔پروفیسر مشتاق احمد ایس ملا، ہبلی۔9902672038

1960 ء کے آخری اور 70 کے شروعاتی دہے میں فلموں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ تاہم معاشرہ میں اس ذرائع ابلاغ کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا گیا۔ طلباء اور بچوں کی کیا مجال کہ سنیما ہال میں نظر آئیں۔ البتہ پختہ عمر نوجوان فلم دیکھتے تو تھے مگر فلم کے اختتام پر ہال سے باہر نکلنے کے لئے عجلت کا وہ مظاہرہ کرتے کہ توبہ ہی بھلی۔انہیں دراصل گیٹ سے نکلنے کی جلدی اس لئے ہوتی کہ فلم دیکھ کر نکلنے تک انہیں خدشہ رہتا کہ کہیں کوئی ایسی نظر نہ پڑجائے جس کی وجہ سے گھر پہنچنے کے بعد باز پرس اور ڈانٹ ڈپٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑے۔ یوں تو ادھیڑ عمر اور سن رسیدہ لوگ بھی اپنا شوق رکھتے تھے مگر کھلے عام فلمی باتیں کرنا یا فلمی تبصرے کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ،مجھے اسکول کے تنگ کوریڈر سے ہوتے ہوئے صدر دروازے سے نکل کر باہر جانا تھا۔ صدر دروازے سے لگے ہیڈ ماسٹر اور ان کے ساتھی ٹیچر کھڑے فلم ’میرے محبوب‘ کا ذکر کررہے تھے جو غالباََ ان دنوں کسی تھیٹر میں لگی رہی ہوگی۔ میں صدر رروازے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ میرے کانوں نے انکی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ’میرے محبوب‘ سن لئے تھے۔ لیکن قربان جائیے ہیڈ ماسٹر صاحب اور ان کے ساتھی ٹیچر پر جنہوں نے مجھے قریب آتا دیکھ کر اپنی گفتگو روک لی۔ کہیں میں ان کی گفتگو نہ سن لوں اور یوں میرے ذہن پر اس کے غلط اثرت مرتب نہ ہوں، جب میں ان سے ہوتا ہوا باہر نکل آیا تو پھر وہ محو گفتگو ہوئے اور پھر باہر نکل آنے کے بعد جو الفاط میں نے سنے وہ فلمی اداکار اشوک کمار اور راجیندر کمار کا ذکر کررہے تھے۔آج سے پچاس سال پہلے اخلاقی اقدار کا یہ عالم تھا کہ اساتذہ اپنے طلباء کی ذہنی و فکری تربیت میں کوئی کثر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔یہ واقعہ آج بھی میرے دل و دماغ میں نقش ہے۔ جب کبھی یہ منظر میرے آنکھوں کے سامنے آجاتا تو ان دونوں اساتذہ کی عظمت میری نگاہ میں اور بڑھ جاتی۔
ان دنوں ہبلی شہر میں تیرہ سنیما ہال ہوا کرتے تھے اور فلم کے پوسٹرس ہی فلم کی تشہیر کا واحد ذریعہ ہوتے۔ ہمارا اسکول اولڈ ہبلی کے علاقہ قصاب محلہ میں واقع تھا۔ گھر سے اسکول جاتے ہوئے اور اسکول سے گھر لوٹتے وقت راستہ میں دو تین نکڑ ایسے آتے جہاں دیواروں پر چل رہی فلموں کے پوسٹرس چسپاں ہوتے، جنہیں ہم روازانہ بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اگر کوئی ہم جماعت اپنے والدین کے ساتھ کوئی فیملی فلم دیکھ کر آتا تو تقریباََ ایک ماہ تک کلاس روم میں وقفہ کے دوران اسی فلم کا تذکرہ کرتا رہتا اور ہم بھی بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتے رہتے تاکہ آتے ہی وہ پھر اپنا راگ الاپنا شروع کردے۔ جب میں چھٹی جماعت میں پہنچا تو فلموں کا شوق کافی بڑھ گیا تھا اور میں اولڈ ہبلی کی مشہور لائبریری میں فلمی رسالے شمع اور روبی پڑھنے لگا تھا۔ دوران مطالعہ توجہ اس بات پر بھی رہتی کہ کہیں کوئی شناسا فلمی رسالہ پڑھتے دیکھ نہ لے۔ میں ہمیشہ صدر دروازے سے دور آخری ٹیبل پر بیٹھا کرتا۔یہ احتیاط اس لئے برتنی پڑتی تھی کہ اس دور میں فلمی رسالے پڑھنا بھی ناپسندیدہ شغل سمجھا جاتا تھا۔
فلمی رسالے شمع کے ہر شمارے میں ایک صفحہ ان فلمی اداکاروں کا ہوتا جن کی اس ماہ میں یومِ پیدائش ہوتی، تاکہ ان کے پرستار سالگرہ کے دن اپنی جانب سے مبارکباد دے کر ان کی خوشیوں کو دوبالا کرسکیں۔ایک دن رسالہ شمع دیکھ رہا تھا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کیونکہ اس ماہ میں میرے پسندیدہ اداکار کی سالگرہ تھی۔میں نے بڑی احتیاط سے پتہ نوٹ کرنے کے بعد پوسٹ آفس کی راہ لی، جو لائبریری سے بالکل قریب تھا۔اس زمانہ میں پوسٹ کارڈ صرف 5پیسوں میں دستیاب تھا۔ بڑی بے قراری سے پوسٹ کارڈ خریدا، پوسٹ آفس میں رکھی ہوئی میز پر بیٹھ کر پوسٹ کارڈ پر اداکار کے لئے نیک خواہشات تحریری کیا، اس کا پتہ لکھا، پوسٹ کارڈ کے ایک گوشہ میں اپنے مکان کا پتہ لکھا اور پوسٹ بکس میں ڈال دیا۔ اس کے بعدمیں گھر کی سمت چل پڑا۔
کچھ دنوں میں یہ واقعہ میں بھول بھی گیا مگر پندرہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اداکار نے ایک بڑے سے لفافہ میں اپنی ایک عدد بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو، شکریہ کا روایتی خط اور پانچ صفحات پر محیط آنے والی فلموں کی تفصیلات ارسال کی، جو میری شامتِ اعمال کہ وہ لیٹر میری والدہ محترمہ کے ہاتھ لگا۔ پوسٹ مین کے جانے کے بعد والدہ صاحبہ کو میرا انتظار مضطرب کئے رہا۔ اس دوران انہوں نے بھانپ لیا ہوگا کہ یہ سب میری کارستانی ہے۔ انہوںنے تاڑلیا کہ پہلے میں نے یہاں سے خط لکھا ہوگا اور جواب میں یہ لفافہ موصول ہوا ہے ۔ابھی جناب چھٹی جماعت میں ہیں مگر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔
اسکول سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ والدہ صاحبہ غصہ میں بھری بیٹھی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اداکار کا آیا ہوا لفافہ تھا۔ میں ان سے نظریں ملانے کی بجائے سر جھکالیا۔ والدہ صاحبہ نے لفافہ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا یہ کیا ہے؟ میں نے خاموشی کے ساتھ لفافہ کھولا ۔ والدہ نے دوبارہ میرے ہاتھ سے لفافہ لیا اور ایک طرف رکھتے ہوئے پھر میری طرف دیکھا تو میری حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو جسم میں لہو نہ ہو۔
مجھے پتہ نہ تھا کہ ایک اداکار سے ہوئی رواتی مراسلت بھی یہ قیامت ڈھائے گی۔ میں اپنی سوچ میں گم سم کھڑا رہ گیا جبکہ والدہ کی نگاہِ دور اندیش نے بہت کچھ دیکھ لیا تھا کہ صاحب زادے ابھی چھٹی جماعت میں زیر تعلیم ہیں اور اس چھوٹی سی عمر میں ہی فلمی دنیا سے خط و کتابت کا سلسلہ بنائے رکھا ہے۔ آگے ہائی اسکول اورکالج جائے پر پتہ نہیں یہ کس دھارے میں بہا چلا جائے گا۔ بھائیوں میں سب سے بڑا میں ہی ہوں ۔ والدہ صاحبہ کو یہ تشویش لاحق ہوئی ہوگی کہ چھوٹے بھائیوں پر میری وجہ سے منفی اثر پڑے گا اور وہ بھی میری راہ پر چل پڑیں گے ۔مجھے اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب میں قصاب محلہ کی اسکول میں مزید ایک سال گزارنے کے بعد آٹھویں جماعت کے لئے اینگلو اردو ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔یہ شہر ہبلی کا واحد اردو ہائی اسکول تھا۔
اسٹیشن روڈ پر موجود یہ تعلیمی ادارہ سنیما گھروں سے گھرا ہوا تھا ۔ ایک سے دوسرے تھیٹر تک پہنچنے میں بمشکل پانچ منٹ لگتے تھے۔ صبح کلاسس کی شروعات سے قبل اسکول کے میدان میں ہونے والی دعا کے موقع پر اسکول کا مین گیٹ کھلا ہوا ہوتا اور گیٹ کے باہر سڑک کی دوسری جانب سدرشن ٹاکیز کی دیواروں سے لگے بڑے بڑے کٹ آؤٹس دکھائی دیتے جن پر نگاہیں نہ چاہنے کے باوجود بے ساختہ اٹھتی رہتیں اور خیلات منتشر ہوتے رہتے۔ ہائی اسکول جانے کے ہم اولڈ ہبلی سے سی بی ٹی کی بس سوار ہوتے اور یہ بس ہائی اسکول کے قریب پہنچنے تک آٹھ سنیما گھروں کے سامنے سے گزرتی ۔ تمام تھیٹروں میں لگے ہوئے بڑے بڑے کٹ آؤٹس اور پوسٹرس ہمارے معصوم ذہنوں کے ساتھ چھیڑ خانی کے لئے کافی ہوتے۔
ہمارے ہائی اسکول اور اجنتا تھیٹر کے درمیان والی دیوار مشترکہ تھی اس وجہ سے تھیٹر سے منتشر ہونے والی آوازوں ،نغموں اور ڈائیلاگ کے سبب دوپہر کی کلاسس متاثر رہتیں۔ میں اپنی بات کی طرف واپس آتا ہوں۔ اس دن والدہ صاحبہ نے نہایت ہی سخت لہجہ میں کہا کہ آئندہ ایسی حرکتیں نہ ہوں۔ اپنی تمام توجہ پڑھائی پر لگائے رہو۔ اس وقت والدہ کا رد عمل قابل دید تھا۔ لہجہ کی سختی بتارہی تھی کہ ان کی بصیرت نے دیکھ لیا تھا کہ جس قسم کا ماحول بنتا جارہا ہے وہاں پر بچوں کی تربیت انتہائی مقدم ہوجاتی ہے اور والدہ صاحبہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھیں کہ ہمارا ہائی اسکول تمام سنیما گھروں کے مرکز میں واقع ہے اور بچوں کے پیر پھسلنے میں دیر نہ لگے گی۔
اس واقعہ کو گزرے پچاس سال کا طویل زمانہ بیت چکا ہے اور تفریح کی دنیا میں بہت ساری تبدیلیاں ، آسانیاں اور سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ گھروں میں ٹیلی ویژن دن کے چوبیس گھنٹے چلتے رہنے والے چینلس ، موبائیلس آسانی سے دستیاب ذہنی تفریح کے دیگر ذرائع مہیا ہوجاتی ہیں۔فیملی میں بچے بڑے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فلمی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ۔فلاں فلم نے باکس آفس پر اتنی کمائی کی ہے۔ فلاں فلم کا ریمیک بنایا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب وہ دور کہاں رہا کہ تیسری جماعت کے طالب علم کو آتے دیکھ کر اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور ان کے ساتھی ٹیچر اپنی فلمی گفتگو روک لیں۔
آج ہمارے درمیان والدہ نہیں رہیں۔ انہیں اس دارِ فانی سے گزرے ہوئے بیس سال کا عرصہ بیت گیا۔ لیکن آج بھی پچاس سال پہلے موصول ہوا اداکار کا جوابی خط اور والدہ کا ردعمل یاد آتا ہے تو میرے دل میں والدہ کے تئیں عظمت، قدر و منزلت اور بڑھ جاتی ہے ۔ کیونکہ یہ میری والدہ ہی تو تھیں جنہوں نے بچپن میں تربیت اور رہنمائی کے کسی بھی مرحلہ پر کبھی غفلت نہیں کی۔اور خاموش نگاہوں سے جو اس وقت سبق دیا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ ہماری والدہ مرحومہ کی’نگاہِ دوررس‘‘ اور تربیت کا نتیجہ ہے کہ ہم پانچوں بھائیوں نے ان تربیتی عناصر کو اپنی عملہ زندگی میں بدرجۂ اتم جگہ دے رکھی ہے،جو شخصیت سازی، انسانی قدروں اور اخلاقی کردار کا احاطہ کرتے ہیں۔